Friday, 23 November 2012

جب روم جل رہا تھا

تقریباَ دو ہزار سال قبل جب سلطنت روم اپنے پورے عروج پر تھی اور عیسائیت کی ابتداء ہی ہوئی تھی او ر اس کے پیروکار وں کی تعداد ابھی بہت کم تھی اس وقت 15دسمبر سن 37کو روم کے نزدیک ایک نواحی علاقہ میں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جو بعد میں نیرو کے نام سے شہرت یافتہ ہوا۔ ماں کی طرف سے اس کا تعلق قیصر روم سے تھا ۔ اس زمانہ میں شاہی خاندان میں سازشیں ، قتل ، ملک بدری جیسی چیزیں عام تھیں۔ ان ہی سازشوں اور حالات کے تغیرات کے نتیجہ میں نیرو صرف سولہ سال کی عمر میں شہنشاہ بن گیا تھا۔ نیرو کے بارہ میں تاریخ دانوں نے لاتعداد کہانیاں بیان کی ہیں خدا جانے ان میں کیا حقیقت ہے :
ہر فسانہ غور سے سنتا ہوں محسن...... اس لئے
ایک حقیقت کے بھی بن جاتے ہیں افسانے بہت

یہ تک کہا گیا ہے کہ نیرو نے اپنی ماں کو قتل کر ا دیا تھا۔ تاریخ دان نیرو کو اپنی بد نامی ، دیوانگی اور ایذارسانی ، ظلم و سازش کے لئے رومن بادشاہوں میں صف اول میں شمار کرتے ہیں۔ اس کے متعلق ضرب المثل بن گئی ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ 18اور19جولائی 64کو روم کے جنوب مشرق میں آتشبازی کی دوکان میں آگ لگ گئی اور اس نے روم کے چودہ قصبوں میں سے تین کو مکمل طور پر خاکستر کر دیا اور سات کو بہت نقصان پہنچایا۔ یہ آگ پانچ دن تک جلتی رہی ، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ آگ خود نیرو نے لگائی تھی کیونکہ وہ اس جگہ ایک عالیشان و وسیع و عریض محل تعمیر کرنا چاہتا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس کا الزام عیسائیوں پر ڈالدیا ۔ کہا جاتا ہے کہ عوام کا جب نیرو پر شک شدت اختیار کرنے لگا تو اس نے قربانی کے بکرے کے طور عیسائیوں کو مورد الزام ٹھہرایا اور ان پر نہایت بھیانک ظلم کئے، ان کو بھوکے خونخوار کتوں کے سامنے ڈالدیا گیا، ان کو صلیب پر لٹکایا گیا اور ان کو زندہ جلا بھی دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب یہ ہولناک آگ لگی ہوئی تھی تو نیرو محل میں بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ اس کے برخلاف متعدد تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ نیرو بلا خوف و خطر آتش زدہ علاقوں میں تنہا گھومتا پھر تا رہا ۔ اپنے محلات کے دروازے کھول دیئے تھے اور امدادی کاموں کی خود نگرانی کر کے متاثرہ لوگوں کی ہر طرح خدمت اور داد رسی کی۔ ان کو کھانا پہنچایا ، نئے مکانات اینٹوں سے تعمیر کئے اور ان کے درمیان خالی جگہ چھوڑی تا کہ آگ ایک گھر سے دوسرے گھر میں نہ پھیلے۔ بہت سے رومن تاریخ دان نیرو کی عزت کرتے تھے کہ اس نے نہ صرف اپنے عوام کو ہر طرح کی آزادی دی بلکہ ان کی حفاظت بھی کی۔
بیگناہ عیسائیوں کے قتل عام کی وجہ سے عوام اس کے خلاف ہو گئے اور سن 68میں سینیٹ نے حکم دیا کہ نیرو کو کوڑے مار مار کر ہلاک کر دیا جائے ۔ کھلے عام کوڑے کھانے اور مرنے کی ذلت سے بچنے کے لئے اس نے زہر کھا لیااور 9جون 68کو 31سال کی عمر میں مر گیا۔ اس نے 14سال حکومت کی تھی مگر اس کا دور اس قدر خون آشام اور دہشت انگیز تھا کہ دنیا اس کو ایک پاگل و جابراور ظالم حکمران کے طور پر یاد کرتی ہے۔ مرتے وقت نیرو کے آخری الفاظ یہ تھے Qualis artifex
pereoیعنی دنیا نے مجھ جیسا کیسا نایاب فن کار کھو دیا ہے
دیکھئے جس طرح ظالم و جا بر حکمران مثلا نیر و ، چنگیز خان ، ہلاکو خان ، تیمور ، نادر شاہ ، احمد شاہ ، ہٹلر ، اسٹا لن مشہور ہیں اُسی طرح دنیا میں نیک اور نامور لوگ جیسے حضرت عمر  ، حضرت عمر بن عبد العزیز ، نوشیرو ان عادل ، ابراہیم لنکن ، وکر مادتیہ ، حاتم طائی ، چواین لائی بھی بہت مشہور ہیں۔ ظلم اور جبر کرنے والے غالباَ شیفتہ کے اس شعر سے متاثر تھے :

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بد نام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا

ظالموں جابروں کے ظلم و بُرائی کا خاص سبب اقتدار کی زیادتی اور روک ٹوک کا فقدان ہوتا ہے ۔ آپ نے لاتعداد مرتبہ یہ انگریزی کہاوت سُنی ہے کہ طاقت انسان کو بد عنوان بنا دیتی ہے اور مکمل اختیار و اقتدار مکمل طور پر بد عنوان بنا دیتا ہے:
(Power corrupts, absolute power corrupts absolutely
ظالم حکمران طبقہ اقتدار پانے کے بعد دوسروں کے مصائب اور آلام سے بے حس اور بے پروا ہو جاتا ہے اور اپنے غلط کاموں پر ہر اعتراض اور نصیحت کو دشمنی سمجھنے لگتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر زمانہ میں ہر ملک میں یہ واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں اور بقول نخشب :
ہوتی آئی ہے زمانہ سے یہ بیداد ، نارو!

ایک ہندوستانی انگریزی اخبار کا مالک اور ایڈیٹر بابو راؤ پٹیل جو ہندو مہا سبھا مخالف پارٹی کا ممبر پارلیمنٹ بھی تھا وہ پنڈت نہرو کو (اسی شاطرانہ چالوں کی وجہ سے ) ہمیشہ نیرو آف انڈیا لکھا کرتا تھا۔ آئیے اب ذرا اپنے ملک کی حا لت زار پر نظر ڈالتے ہیں جہاں اقتدار پانے والے افراد نے ذاتی مفاد تو حاصل کیا لیکن عوامی فلاح کو یکسر نظر اندازکر کے ، ان کے مصائب سے بے حسی کا ارتکاب کر کے عوام کے دلوں سے اپنی غیرت و وقعت کو کھو دیا ۔ ذاتی مفاد تو صرف قوم کو مالی نقصان پہنچاتا ہے لیکن ان کی تکالیف او رپریشانی کو اہمیت نہ دینا دوسری خطا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بے حس حکمرانوں کا عوامی پریشانی کو یکسر نظرا نداز کر کے ان کی پریشانی اور مصیبت کے وقت سیر و تفریح ، جلسے جلوس ، مبارکبادیاں ، پارٹی فنکشن اور دعوتیں کرنا عوام کے زخموں پر نمک مرچ چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اسکی مثالیں ہمارے ملک میں حکمرانوں نے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اپنے دور میں پیش کی ہیں جو عوام نہ بھولے ہیں اور نہ کبھی بھولیں گے۔
اس مملکت خداد اد پاکستان کی بد نصیبی ہے کہ یہاں بار بار مُطلق العنان اور خود غرض حکمران آتے رہے ہیں خواہ وہ خاکی میں ہوں یا در آمد شدہ سوٹ میں۔ سب سے پہلے فالج زدہ غلام محمد جس نے جمہوریت کو اپاہج کر دیا اور وہ آجتک اپاہج ہے۔ پھر ایوب خان نے آمریت کی بنیاد رکھی اور تو اور الیکشن میں دھاندلی کر کے محترمہ فاطمہ جناح مادرِ ملّت جیسی خاتون کو ہرا دیا مگر جو انجام غلام محمد اور ایوب خان کا ہو ا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔بعد میں ضیاء الحق نے نمک حرامی کرکے اپنے محسن ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹا دیا اور عدلیہ کی شرکت سے جھوٹے مقدمے میں پھانسی دیدی۔ ضیاء الحق اور مولوی مشتاق کے انجام سے بھی آپ واقف ہیں۔
ان سب سے زیادہ بد معاش، ظالم ، سازشی ، جھوٹا، کم ظرف ڈکٹیٹر مشرف تھا جس نے نہ صرف اپنے مُحسنوں کے ساتھ غداری کی بلکہ اس ملک کی غیرت ، حمیت اور وقار کو امریکی جوتوں کی خاک کے بدلے بیچ دیا۔ یہ تو بین الاقوامی سطح کی بات تھی ملک کے اندر عدلیہ کی بے عزتی اور ججوں کی نظر بندی دستور کو ردی کی ٹوکری میں ڈالدینا ، نواب اکبر بگٹی جیسے ضعیف محب وطن کا بہیمانہ قتل ، لال مسجد میں مردوں ، عورتوں اور بچیوں کا قتل عام اور فاسفورس بموں سے ان کو زندہ جلانا، کراچی میں بد معاشی سے لاتعداد شہریوں اور وکلاء کا قتل عام ۔ جب کراچی میں قیامت بر پا تھی تو یہ جاہل ڈکٹیٹر اسلام آباد کے جلسے میں مُکہ اُٹھا اُٹھا کر خوشی کا اظہار کر رہا تھا ۔ اس طرح اس جدید ڈکٹیٹر نے نیرو کی پوری طرح تقلید کی۔
آج ہمارے ملک میں سیلا ب کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں ۔ نیرو کے چیلے بھوکے پیاسے مردوں ، عورتوں اور بچوں پر لاٹھیاں بر سا رہے ہیں۔ حکمران ، وزراء ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر فوٹو سیشن کر رہے ہیں اور جعلی کیمپوں میں چیک (جعلی؟) تقسیم کر رہے ہیں۔ پوری دنیا نے ہمارے لیڈروں کو بے ایمان ، کر پٹ ہونے کے سر ٹیفکیٹ دیدیئے ہیں اور کوئی ان پر بھروسہ نہیں کر رہا ۔ کھلے عام ان کو ”فیصد“ کے لقب سے یاد کیا جا رہا ہے لیکن واہ رے واہ کیا گینڈے کی کھال ہے کہ رتی برابر شرم و حیا نہیں ہے ۔ لاشوں کی سیاست زوروں پر ہے صرف افواج پاکستان تندہی اور دلجوئی سے متاثرہ لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے الطاف حسین نے بیان داغ دیا کہ مارشل لاء کی طرح سخت اور فوری اقدامات کے ذریعہ چوروں ، لٹیروں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ حقیقت ہے بھی یہ کہ موجودہ قوانین اور عدلیہ ایسے مجرموں سے نپٹنے میں قطعی ناکام رہے ہیں۔ نیرو روم کی تباہی پر بانسری بجا رہا تھا اور ہمارے لیڈر محلات میں بیٹھے دعوتیں اُڑا رہے ہیں۔ لطیفے سنا رہے ہیں ، قہقہے لگا رہے ہیں اور سیا سی سازشیں کر رہے ہیں۔ مگر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا ۔ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ ”بہرے ، گونگے ، اندھے ہیں پس یہ گمراہی سے باز نہیں آ سکتے ، بہر ے گونگے، اندھے ہیں پس یہ دیکھتے نہیں، بہرے گونگے ، اندھے ہیں پس یہ سمجھتے نہیں۔“ سورة ابراہیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بلکہ تنبیہ کی ہے کہ یہ نہ سوچو کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کے اعمال سے واقف نہیں ہے وہ تو ان کو (حجت پوری کرنے کے لئے) ایک وقت مقررہ تک مہلت دیتا ہے اور پھر جب اس کا عتاب نازل ہوتا ہے تو وحشت و خوف سے گنہگاروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے سامنے اپنے پیشروؤں کی مثالیں ہیں کیا کیا تدبیریں کر رہے تھے لیکن اللہ کی تدبیر کے آگے اُن کی ایک نہ چلی، خاک میں جا ملے ، کیڑوں نے لاشیں کھالیں اور ہڈیاں مٹی میں مل گئیں۔ اگر یہ ماضی قریب کے واقعات سے عبرت حاصل نہیں کرتے تو ان کا حال بھی پچھلے نیرو اورماضی قریب کے نیروؤں کا سا ہو گا۔ یہ غائب ہوں گے اور دوسرے لوگ بانسری بجا رہے ہونگے۔



ڈاکٹر عبدالقدیر خان

No comments:

Post a Comment